EN हिंदी
یوں بھی ترا احسان ہے آنے کے لیے آ | شیح شیری
yun bhi tera ehsan hai aane ke liye aa

غزل

یوں بھی ترا احسان ہے آنے کے لیے آ

طالب باغپتی

;

یوں بھی ترا احسان ہے آنے کے لیے آ
اے دوست کسی روز نہ جانے کے لیے آ

ہر چند نہیں شوق کو یارائے تماشا
خود کو نہ سہی مجھ کو دکھانے کے لیے آ

یہ عمر، یہ برسات، یہ بھیگی ہوئی راتیں
ان راتوں کو افسانہ بنانے کے لیے آ

جیسے تجھے آتے ہیں نہ آنے کے بہانے
ایسے ہی بہانے سے نہ جانے کے لیے آ

مانا کہ محبت کا چھپانا ہے محبت
چپکے سے کسی روز جتانے کے لیے آ

تقدیر بھی مجبور ہے، تدبیر بھی مجبور
اس کہنہ عقیدے کو مٹانے کے لیے آ

عارض پہ شفق، دامن مژگاں میں ستارے
یوں عشق کی توقیر بڑھانے کے لیے آ

طالبؔ کو یہ کیا علم، کرم ہے کہ ستم ہے
جانے کے لیے روٹھ، منانے کے لیے آ