EN हिंदी
یوں بھی کیا تھا اور اب کیا رہ گیا | شیح شیری
yun bhi kya tha aur ab kya rah gaya

غزل

یوں بھی کیا تھا اور اب کیا رہ گیا

حمید الماس

;

یوں بھی کیا تھا اور اب کیا رہ گیا
میں اکیلا تھا اکیلا رہ گیا

ہجر میں ہے کون کتنا بے قرار
لیکن ان باتوں میں اب کیا رہ گیا

مصلحت کافر تھی باز آئی نہیں
دل وہ ناداں تھا کہ روتا رہ گیا

ساقیٔ عمر دو روزہ یاد رکھ
میری جانب سے تقاضہ رہ گیا

چارہ سازو بھول جاؤں گا اسے
اب سناؤ زخم کتنا رہ گیا

زندگی کچھ اس طرح کٹتی گئی
جیسے کوئی ہاتھ ملتا رہ گیا

بھیڑ تنہائی کی چھٹتی ہی نہیں
ہر طرف چہرہ ہی چہرہ رہ گیا

موت کیا آتی بچھڑ کر دوست سے
دیکھ لو الماسؔ زندہ رہ گیا