یوں بھی جینے کے بہانے نکلے
کھوج خود اپنا لگانے نکلے
پیٹھ پر بوجھ شکم کا لے کر
ہم تری یاد جگانے نکلے
آنکھ لگ جائے تو وحشت کم ہو
چاند کس وقت نہ جانے نکلے
وہی لمحے جو تھے لمحوں سے بھی کم
اپنی وسعت میں زمانے نکلے
اک تبسم پہ ٹلے گی ہر بات
داغ دل کس کو دکھانے نکلے
قحط آباد سخن میں شاہینؔ
کیوں غزل اپنی گنوانے نکلے
غزل
یوں بھی جینے کے بہانے نکلے
ولی عالم شاہین