یوں بھی گزری ہیں مری شام و سحر پانی میں
اشک بن بن کے بہا خون جگر پانی میں
کیا ڈرائیں گے یہ آفات زمانہ ہم کو
ہم بنا لیتے ہیں جب راہ سفر پانی میں
سخت سے سخت بھی پتھر نہ رہا پھر پتھر
اکثر آیا ہے نظر ایسا اثر پانی میں
تم اسی طور مرے دل میں رہا کرتے ہو
جس طرح رہتا ہے پوشیدہ گہر پانی میں
جذبۂ شوق و تصور کی بدولت اکثر
دیکھتا رہتا ہوں میں عکس قمر پانی میں
خواہش عیش و طرب کیوں ہو زمانے کی اسے
زندگی ہوتی رہی جس کی بسر پانی میں
روشنی دیتی وہ کیسے رہ الفت پہ رئیسؔ
شمع امید جلائی تھی مگر پانی میں

غزل
یوں بھی گزری ہیں مری شام و سحر پانی میں
رئیس ناروی