یہ ظلم ہے خیال سے اوجھل نہ کر اسے
جو حاصل سفر ہے معطل نہ کر اسے
وہ شعلۂ سوال کہ دنیا اجال دے
دل کے چراغ میں تو مقفل نہ کر اسے
ہر شیلف پر سجے ہیں مگر دشمنوں کے سر
ناداں تیرا دماغ ہے مقتل نہ کر اسے
حیرت تری سرشت ہے نا رس تری نگاہ
وہ عقدۂ جمال ابھی حل نہ کر اسے
یہ اور بات ایک ستارے سے جنگ ہے
بس جنگ ہے جہاد مسلسل نہ کر اسے

غزل
یہ ظلم ہے خیال سے اوجھل نہ کر اسے
ساقی فاروقی