یہ زرد چہرہ یہ درد پیہم کوئی سنے گا تو کیا کہے گا
ذرا سے دل میں ہزار ہا غم کوئی سنے گا تو کیا کہے گا
نہ قہقہوں کے ہی سلسلے ہیں نہ دوستوں میں وہ رتجگے ہیں
ہر اک سے ملنا کیا ہے کم کم کوئی سنے گا تو کیا کہے گا
بچھڑنے والوں کا غم نہ کیجے خود اپنے اوپر ستم نہ کیجئے
اداس چہرہ ہے آنکھ پر نم کوئی سنے گا تو کیا کہے گا
تو صرف اپنی غرض کی خاطر یہ جلتے دیپک بجھا رہا ہے
مگر ذرا یہ تو سوچ ہمدم کوئی سنے گا تو کیا کہے گا
بلائیں کتنی بھی آئیں سر پر رئیسؔ غم کی نہ کیجے شہرت
یہ آہ و زاری یہ شور ماتم کوئی سنے گا تو کیا کہے گا

غزل
یہ زرد چہرہ یہ درد پیہم کوئی سنے گا تو کیا کہے گا
رئیس صدیقی