یہ زمیں خواب ہے آسماں خواب ہے
اک مکاں ہی نہیں لا مکاں خواب ہے
جان لیوا سہی جستجو کی تھکن
پر سہارا دیے اک جواں خواب ہے
اس کی آنکھوں میں اپنائیت کی چمک
میری آنکھوں کا اک بے اماں خواب ہے
ٹوٹ جائے تو کچھ بھی نہیں کوئی بھی
جس کے دم سے ہیں دونوں جہاں خواب ہے
چلچلاتی ہوئی وقت کی دھوپ میں
ساتھ اک سایۂ مہرباں خواب ہے
تو سراب حسیں میں فریب نظر
پیار تیرا مری جان جاں خواب ہے
شادیٔ بے پنہ کا سبب ہے مگر
وجہ آہ و فغاں بھی میاں خواب ہے
زندگی کے کٹھن جنگلوں میں مرا
ہر قدم راہ بر پاسباں خواب ہے
جان شہزادؔ تنہائیاں ہیں اٹل
اور باقی کا یہ کارواں خواب ہے
غزل
یہ زمیں خواب ہے آسماں خواب ہے
فرحت شہزاد