یہ زمین آسمان کا ممکن
نہیں سارے جہان کا ممکن
عقل کی خار زار وادی میں
رکھ لیا ہے گمان کا ممکن
کچھ مرے حال زار کا امکان
کچھ تری آن بان کا ممکن
ہیں وہی نارسائی کے نغمے
اور وہی مہربان کا ممکن
کچھ زیادہ تباہ کر نہ سکے
جسم کے ساتھ جان کا ممکن
آگے آگے ہوں میں مرے پیچھے
ہے مرے قدردان کا ممکن
دور تر ہے سراغ کا ساحل
دھند میں ہے نشان کا ممکن
لا مکانی ہی لا مکانی ہے
کھو چکا ہے مکان کا ممکن
اس بڑھاپے میں بھی ظفرؔ آ کر
کوئی دیکھے جوان کا ممکن
غزل
یہ زمین آسمان کا ممکن
ظفر اقبال