یہ وہ نالے ہیں جو لب تک آئیں گے
تم تو کیا ہو آسماں ہل جائیں گے
عشق میں اک پیر دیرینہ ہوں میں
مجھ کو ناصح آ کے کیا سمجھائیں گے
حضرت دل سوچتے ہیں آج کچھ
پھر بلا کوئی مقرر لائیں گے
اس توقع پر اٹھاتے ہیں ستم
کچھ تو سمجھیں گے کبھی شرمائیں گے
پھینک دیں گے دل کو پہلو چیر کر
آپ دیکھیں کس طرح لے جائیں گے
حال دل کہتے ہیں جو کچھ ہو سو ہو
دیکھیے وہ آج کیا فرمائیں گے
پھر نہ چونکیں گے قیامت تک نسیمؔ
پاؤں جس دن قبر میں پھیلائیں گے
غزل
یہ وہ نالے ہیں جو لب تک آئیں گے
نسیم دہلوی