EN हिंदी
یہ وقت زندگی کی ادائیں بھی لے گیا | شیح شیری
ye waqt zindagi ki adaen bhi le gaya

غزل

یہ وقت زندگی کی ادائیں بھی لے گیا

فاروق انجم

;

یہ وقت زندگی کی ادائیں بھی لے گیا
قصے کہانیوں کی سبھائیں بھی لے گیا

اس نے تمام شہر کو گونگا بنا دیا
میرے دہن سے میری صدائیں بھی لے گیا

موسم لگا کے زخم گیا شاخ شاخ پر
پیڑوں سے پھولوں والی ردائیں بھی لے گیا

سورج نے ڈوبتے ہوئے ہم کو سزا یہ دی
جسموں سے روشنی کی قبائیں بھی لے گیا

گزرا تھا اپنے شہر سے راون فساد کا
ظالم محبتوں کی کتھائیں بھی لے گیا

انجمؔ نرالا چور ہمیں راہ میں ملا
جو دل کے ساتھ ہم سے دعائیں بھی لے گیا