یہ وقت زندگی کی ادائیں بھی لے گیا
قصے کہانیوں کی سبھائیں بھی لے گیا
اس نے تمام شہر کو گونگا بنا دیا
میرے دہن سے میری صدائیں بھی لے گیا
موسم لگا کے زخم گیا شاخ شاخ پر
پیڑوں سے پھولوں والی ردائیں بھی لے گیا
سورج نے ڈوبتے ہوئے ہم کو سزا یہ دی
جسموں سے روشنی کی قبائیں بھی لے گیا
گزرا تھا اپنے شہر سے راون فساد کا
ظالم محبتوں کی کتھائیں بھی لے گیا
انجمؔ نرالا چور ہمیں راہ میں ملا
جو دل کے ساتھ ہم سے دعائیں بھی لے گیا
غزل
یہ وقت زندگی کی ادائیں بھی لے گیا
فاروق انجم