یہ وفا مانگے ہے تم سے نہ جفا مانگے ہے
میری معصوم جبیں ایک خدا مانگے ہے
دل کا ہر زخم مرا داد وفا مانگے ہے
بے گناہی مری اب تم سے سزا مانگے ہے
دل کم بخت کو دیکھو تو یہ کیا مانگے ہے
ایک بت سب سے الگ سب سے جدا مانگے ہے
اک اچٹتی سی نظر ایک تبسم کی کرن
دل کم ظرف وفاؤں کا صلا مانگے ہے
ہوش جاتے رہے ممتازؔ کے شاید لوگو
عصر حاضر میں وہ جینے کی دعا مانگے ہے
غزل
یہ وفا مانگے ہے تم سے نہ جفا مانگے ہے
ممتاز میرزا