یہ عمر مصیبت کی بسر ہو کے رہے گی
جب شام ہوئی ہے تو سحر ہو کے رہے گی
افسردگی دل گل تر ہو کے رہے گی
آہ سحری باد سحر ہو کے رہے گی
خود ان کے تغافل کی عنایت سے کسی دن
ان کو مری حالت کی خبر ہو کے رہے گی
وہ برق تجلی جو ابھی کعبۂ دل ہے
اک روز وہ مسجود نظر ہو کے رہے گی
یا قابل سجدہ ہی رہے گا نہ در حسن
یا میری جبیں قابل در ہو کے رہے گی
سیراب نظر ہوگی مری یا گل تر سے
یا ختم بہار گل تر ہو کے رہے گی
اب ان کی جفائیں نظر انداز نہ ہوں گی
اب میری وفا مد نظر ہو کے رہے گی
جو غفلت آزادیٔ گلشن میں کٹے گی
اس رات کی زنداں میں سحر ہو کے رہے گی
غزل
یہ عمر مصیبت کی بسر ہو کے رہے گی
بسمل سعیدی