یہ اداسی یہ پھیلتے سائے
ہم تجھے یاد کر کے پچھتائے
مل گیا تھا سکوں نگاہوں کو
کی تمنا تو اشک بھر آئے
گل ہی اکتا گئے ہیں گلشن سے
باغباں سے کہو نہ گھبرائے
ہم جو پہنچے تو رہ گزر ہی نہ تھی
تم جو آئے تو منزلیں لائے
جو زمانے کا ساتھ دے نہ سکے
وہ ترے آستاں سے لوٹ آئے
بس وہی تھے متاع دیدہ و دل
جتنے آنسو مژہ تلک آئے
غزل
یہ اداسی یہ پھیلتے سائے
زہرا نگاہ