EN हिंदी
یہ تم نے پاؤں کیا رکھا ہوا تھا | شیح شیری
ye tumne panw kya rakkha hua tha

غزل

یہ تم نے پاؤں کیا رکھا ہوا تھا

وسیم تاشف

;

یہ تم نے پاؤں کیا رکھا ہوا تھا
زمیں نے حوصلہ رکھا ہوا تھا

پرندوں سے ہماری دوستی تھی
شجر سے واسطہ رکھا ہوا تھا

تبھی ہم جی رہے تھے خوش دلی سے
کہ تم نے رابطہ رکھا ہوا تھا

بظاہر لگ رہی تھی اینٹ لیکن
سڑک پر حادثہ رکھا ہوا تھا

کسی نے گھر بڑے رکھے ہوئے تھے
کسی نے دل بڑا رکھا ہوا تھا

تری نسبت سے سب کچھ مل رہا تھا
وگرنہ مجھ میں کیا رکھا ہوا تھا

ہوائے آخر شب نے دیوں سے
سلوک ناروا رکھا ہوا تھا