یہ تیری چاہ بھی کیا تیری آرزو بھی کیا
ہمارے جسم میں یہ دوڑتا لہو بھی کیا
ہے جس کے دھیان میں ہر لمحہ خواب کا عالم
ملے کہیں تو کریں اس سے گفتگو بھی کیا
ترے خیال کی خوشبو ترے جمال کا رنگ
ہمارے دشت میں لیکن یہ رنگ و بو بھی کیا
یہ تپتی ریت یہ پیاسی زمیں یہاں لوگو
کسی کے پیار سے مہکی ہوئی نمو بھی کیا
ہزار کوہ و بیاباں کئے ہیں طے لیکن
ہوئے ہم آبلہ پایاں لہو لہو بھی کیا
کسی کی یاد میں کٹ جائے زندگی ساری
اک آرزو تو ہے لیکن یہ آرزو بھی کیا
غزل
یہ تیری چاہ بھی کیا تیری آرزو بھی کیا
احمد ہمدانی