یہ تمام غنچہ و گل میں ہنسوں تو مسکرائیں
کبھی یک بیک جو رو دوں تو ستارے ٹوٹ جائیں
مرے داغ دل کی تابش جو کبھی یہ دیکھ پائیں
وہیں رشک بے اماں سے مہ و مہر ڈوب جائیں
کبھی ذوق جستجو پر اگر اعتبار کر لوں
سر راہ منزلیں خود مجھے ڈھونڈنے کو آئیں
کبھی بے قرار ہو کر جو میں ساز عشق چھیڑوں
تو یہ مشتری و زہرہ کوئی گیت پھر نہ گائیں
مرا ذوق مے پرستی ہے کچھ اس قدر مکمل
جو میں جام مے اٹھا لوں تو برس پڑیں گھٹائیں
سر میکدہ جو دیکھیں مری مے کشی کا منظر
ہوں شیوخ سر بہ سجدہ کرے زاہد التجائیں
غزل
یہ تمام غنچہ و گل میں ہنسوں تو مسکرائیں
شکیل بدایونی