یہ تجربہ بھی کروں یہ بھی غم اٹھاؤں میں
کہ خود کو یاد رکھوں اس کو بھول جاؤں میں
اسی سے پوچھ کے دیکھوں وہ میرا ہے کہ نہیں
اب اور کتنا فریب جمال کھاؤں میں
وہ بے لباس سہی جامہ زیب کتنا ہے
مہ خیال کو پوشاک کیا پہناؤں میں
وہ پل کہاں ہے جو دنیا سے جوڑتا تھا مجھے
جو تو قریب ہو سب سے قریب آؤں میں
کبھی تو ہو مرے احساس کم تری میں کمی
کبھی تو ہو کہ اسے کھل کے یاد آؤں میں
وہ شخص ہے کہ نسیم سحر کا جھونکا ہے
بکھر ہی جاؤں جو اس کو گلے لگاؤں میں
اذاں کے بعد دعا کو جو ہاتھ اٹھائے وہ
امامؔ اپنی نمازیں بھی بھول جاؤں میں
غزل
یہ تجربہ بھی کروں یہ بھی غم اٹھاؤں میں
مظہر امام