یہ تغیر رونما ہو جائے گا سوچا نہ تھا
اس کا دل درد آشنا ہو جائے گا سوچا نہ تھا
نت نئے راگوں کی تھی جس ساز ہستی سے امید
وہ بھی بے صوت و صدا ہو جائے گا سوچا نہ تھا
یوں سراپا التجا بن کر ملا تھا پہلے روز
اتنی جلدی وہ خدا ہو جائے گا سوچا نہ تھا
وہ تعلق جس کو دونوں ہی سمجھتے تھے مذاق
اس قدر باقاعدہ ہو جائے گا سوچا نہ تھا
جس سراجؔ اجملی سے تھیں امیدیں بے شمار
وہ بھی نذر واہ وا ہو جائے گا سوچا نہ تھا
غزل
یہ تغیر رونما ہو جائے گا سوچا نہ تھا
سراج اجملی