یہ طائروں نے جو اک دوسرے کے نام لیے
ضرور دشت میں آیا ہے کوئی دام لیے
نہ ہو مزاج میں ایسی بھی دوراندیشی
کہ صبح سے کوئی نکلے چراغ شام لیے
کوئی اشارہ نہ ہو کوئی استعارہ نہ ہو
تم اس کا تذکرہ کرنا بغیر نام لیے
دیار ذات میں احساس کی قلمرو میں
فقیر ملتے ہیں شاہوں کا احتشام لیے
سمیٹ لے نہ کہیں پھر زمیں سے چادر آب
چلا ہے پھر وہ سمندر کی سمت جام لیے
رہین چشم تھی خوابوں کی رہگزر پھر بھی
نہ چل سکا کوئی بے تہمت قیام لیے
یہی کہا کہ ہیں رازوں سے با خبر کچھ لوگ
پتے بتائے نہ اس نے زباں سے نام لیے
درون ذات کوئی غیر آ نہیں سکتا
کھڑی ہے در پہ انا تیغ بے نیام لیے
غزل
یہ طائروں نے جو اک دوسرے کے نام لیے
نور محمد یاس