EN हिंदी
یہ سست ہے تو پھر کیا وہ تیز ہے تو پھر کیا | شیح شیری
ye sust hai to phir kya wo tez hai to phir kya

غزل

یہ سست ہے تو پھر کیا وہ تیز ہے تو پھر کیا

اکبر الہ آبادی

;

یہ سست ہے تو پھر کیا وہ تیز ہے تو پھر کیا
نیٹیو جو ہے تو پھر کیا انگریز ہے تو پھر کیا

رہنا کسی سے دب کر ہے امن کو ضروری
پھر کوئی فرقہ ہیبت انگیز ہے تو پھر کیا

رنج و خوشی کی سب میں تقسیم ہے مناسب
بابو جو ہے تو پھر کیا چنگیز ہے تو پھر کیا

ہر رنگ میں ہیں پاتے بندے خدا کے روزی
ہے پینٹر تو پھر کیا رنگریز ہے تو پھر کیا

جیسی جسے ضرورت ویسی ہی اس کی چیزیں
یاں تخت ہے تو پھر کیا واں میز ہے تو پھر کیا

مفقود ہیں اب اس کے سننے سمجھنے والے
میرا سخن نصیحت آمیز ہے تو پھر کیا