یہ سرمئی فضاؤں کی کنمناہٹیں
ملتی ہیں مجھ کو پچھلے پہر تیری آہٹیں
اس کائنات غم کی فسردہ فضاؤں میں
بکھرا گئے ہیں آ کے وہ کچھ مسکراہٹیں
اے جسم نازنین نگار نظر نواز
صبح شب وصال تیری ملگجاہٹیں
پڑتی ہے آسمان محبت پہ چھوٹ سی
بل بے جبین ناز تری جگمگاہٹیں
چلتی ہے جب نسیم خیال خرام ناز
سنتا ہوں دامنوں کی ترے سرسراہٹیں
چشم سیہ تبسم پنہاں لئے ہوئے
پو پھوٹنے سے قبل افق کی اداہٹیں
جنبش میں جیسے شاخ ہو گلہائے نغمہ کی
اک پیکر جمیل کی یہ لہلہاہٹیں
جھونکوں کی نذر ہے چمن انتظار دوست
یاد امید و بیم کی یہ سنسناہٹیں
ہو سامنا اگر تو خجل ہو نگاہ برق
دیکھی ہیں عضو عضو میں وہ اچپلاہٹیں
کس دیس کو سدھار گئیں اے جمال یار
رنگیں لبوں پہ کھیل کے کچھ مسکراہٹیں
رخسار تر سے تازہ ہو باغ عدن کی یاد
اور اس کی پہلی صبح کی وہ رسمساہٹیں
ساز جمال کی یہ نواہائے سرمدی
جوبن تو وہ فرشتے سنیں گنگناہٹیں
آزردگی حسن بھی کس درجہ شوخ ہے
اشکوں میں تیرتی ہوئی کچھ مسکراہٹیں
ہونے لگا ہوں خود سے قریں اے شب الم
میں پا رہا ہوں ہجر میں کچھ اپنی آہٹیں
میری غزل کی جان سمجھنا انہیں فراقؔ
شمع خیال یار کی یہ تھرتھراہٹیں
غزل
یہ سرمئی فضاؤں کی کنمناہٹیں
فراق گورکھپوری