یہ ستم کی محفل ناز ہے کلیمؔ اس کو اور سجائے جا
وہ دکھائیں رقص ستم گری تو غزل کا ساز بجائے جا
جو اکڑ کے شان سے جائے ہے پیار سے یہ بتائے جا
کہ بلندیوں کی ہے آرزو تو دلوں میں پہلے سمائے جا
وہ جو زخم دیں سو قبول ہے ترے واسطے وہی پھول ہے
یہی اہل دل کا اصول ہے وہ رلائے جائیں تو گائے جا
ترا سیدھا سا وہ بیان ہے تری ٹوٹی پھوٹی زبان ہے
ترے پاس ہیں یہی ٹھیکرے تو محل انہیں سے بنائے جا
وہ جفا شعار و ستم ادا تو سخن طراز و غزل سرا
وہ تمام کانٹے اگائیں گے تو تمام پھول کھلائے جا
کوئی لاکھ زہرہ جبین ہے جسے چاہیں ہم وہ حسین ہے
کلیمؔ اس سراپا غرور کو ذرا آئنہ تو دکھائے جا
غزل
یہ ستم کی محفل ناز ہے کلیمؔ اس کو اور سجائے جا
کلیم عاجز