یہ سلسلے بھی رفاقت کے کچھ عجیب سے ہیں
کہ دور دور کے منظر بہت قریب سے ہیں
قبائے زر ہے انا کی اگرچہ زیب بدن
مگر یہ اہل ہنر دل کے سب غریب سے ہیں
یہاں تو سب ہی اشاروں میں بات کرتے ہیں
عجیب شہر ہے اس کے مکیں عجیب سے ہیں
میں زندگی میں مروں گی نہ جانے کتنی بار
مجھے خبر ہے کہ رشتے مرے صلیب سے ہیں
یہ اور بات کہ اس کی چہک سے کھلتا ہے
ہزار شکوے مگر گل کو عندلیب سے ہیں
اسے تو اپنی خبر بھی یہاں نہیں ملتی
امیدیں تم کو بہت جس الم نصیب سے ہیں
غزل
یہ سلسلے بھی رفاقت کے کچھ عجیب سے ہیں
شبنم شکیل