EN हिंदी
یہ سلسلہ غموں کا نہ جانے کہاں سے ہے | شیح شیری
ye silsila ghamon ka na jaane kahan se hai

غزل

یہ سلسلہ غموں کا نہ جانے کہاں سے ہے

شکیل گوالیاری

;

یہ سلسلہ غموں کا نہ جانے کہاں سے ہے
اہل زمیں کو شکوہ مگر آسماں سے ہے

یادوں کی رہ گزار سے خوابوں کے شہر تک
اک سلسلہ ضرور ہے لیکن کہاں سے ہے

میری کتاب زیست کو ایسے نہ پھینکیے
روشن کسی کا نام اسی داستاں سے ہے

منزل نہ پائی میں نے مگر یہ تو کھل گیا
رشتہ مرے سفر کا کسی کارواں سے ہے

موسم کی ہیر پھیر نے ثابت یہ کر دیا
کچھ میرے جسم کا بھی تعلق مکاں سے ہے

کہنے کو لوگ کیا نہیں کہتے شکیلؔ کو
سننے کا اشتیاق تمہاری زباں سے ہے