یہ سلسلہ غموں کا نہ جانے کہاں سے ہے
اہل زمیں کو شکوہ مگر آسماں سے ہے
یادوں کی رہ گزار سے خوابوں کے شہر تک
اک سلسلہ ضرور ہے لیکن کہاں سے ہے
میری کتاب زیست کو ایسے نہ پھینکیے
روشن کسی کا نام اسی داستاں سے ہے
منزل نہ پائی میں نے مگر یہ تو کھل گیا
رشتہ مرے سفر کا کسی کارواں سے ہے
موسم کی ہیر پھیر نے ثابت یہ کر دیا
کچھ میرے جسم کا بھی تعلق مکاں سے ہے
کہنے کو لوگ کیا نہیں کہتے شکیلؔ کو
سننے کا اشتیاق تمہاری زباں سے ہے

غزل
یہ سلسلہ غموں کا نہ جانے کہاں سے ہے
شکیل گوالیاری