یہ شہرت ہے کہ رسوائی مگر حد سے زیادہ ہے
میں خود اتنا نہیں سایہ مرے قد سے زیادہ ہے
مرے دل کی گرہ باتیں بنانے سے نہیں کھلتی
کہ مجھ میں بستگی کچھ قفل ابجد سے زیادہ ہے
کسی کے پاس حرف دل نشیں باقی نہیں ورنہ
قبول اب بھی دلوں کی خاک میں رد سے زیادہ ہے
سویدا کو مرے نسبت بہت ہے سنگ اسود سے
مگر نقش کف پائے محمد سے زیادہ ہے
یہ جان ناتواں میری یہ شوق بے اماں میرا
توانائی کف سیلاب میں سد سے زیادہ ہے
غزل
یہ شہرت ہے کہ رسوائی مگر حد سے زیادہ ہے
خورشید رضوی