EN हिंदी
یہ شہرت ہے کہ رسوائی مگر حد سے زیادہ ہے | شیح شیری
ye shohrat hai ki ruswai magar had se ziyaada hai

غزل

یہ شہرت ہے کہ رسوائی مگر حد سے زیادہ ہے

خورشید رضوی

;

یہ شہرت ہے کہ رسوائی مگر حد سے زیادہ ہے
میں خود اتنا نہیں سایہ مرے قد سے زیادہ ہے

مرے دل کی گرہ باتیں بنانے سے نہیں کھلتی
کہ مجھ میں بستگی کچھ قفل ابجد سے زیادہ ہے

کسی کے پاس حرف دل نشیں باقی نہیں ورنہ
قبول اب بھی دلوں کی خاک میں رد سے زیادہ ہے

سویدا کو مرے نسبت بہت ہے سنگ اسود سے
مگر نقش کف پائے محمد سے زیادہ ہے

یہ جان ناتواں میری یہ شوق بے اماں میرا
توانائی کف سیلاب میں سد سے زیادہ ہے