EN हिंदी
یہ سمندر ہے کنارے ہی کنارے جاؤ | شیح شیری
ye samundar hai kinare hi kinare jao

غزل

یہ سمندر ہے کنارے ہی کنارے جاؤ

کلیم عاجز

;

یہ سمندر ہے کنارے ہی کنارے جاؤ
عشق ہر شخص کے بس کا نہیں پیارے جاؤ

یوں تو مقتل میں تماشائی بہت آتے ہیں
آؤ اس وقت کہ جس وقت پکارے جاؤ

دل کی بازی لگے پھر جان کی بازی لگ جائے
عشق میں ہار کے بیٹھو نہیں ہارے جاؤ

کام بن جائے اگر زلف جنوں بن جائے
اس لیے اس کو سنوارو کہ سنوارے جاؤ

کوئی رستہ کوئی منزل اسے دشوار نہیں
جس جگہ چاہو محبت کے سہارے جاؤ

ہم تو مٹی سے اگائیں گے محبت کے گلاب
تم اگر توڑنے جاتے ہو ستارے جاؤ

ڈوبنا ہوگا اگر ڈوبنا تقدیر میں ہے
چاہے کشتی پہ رہو چاہے کنارے جاؤ

تم ہی سوچو بھلا یہ شوق کوئی شوق ہوا
آج اونچائی پہ بیٹھو کل اتارے جاؤ

موت سے کھیل کے کرتے ہو محبت عاجزؔ
مجھ کو ڈر ہے کہیں بے موت نہ مارے جاؤ