یہ سیل اشک مجھے گفتگو کی تاب تو دے
جو یہ کہوں کہ وفا کا مری حساب تو دے
بھری بہار رتوں میں بھی خار لے آئی
یہ انتظار کی ٹہنی کبھی گلاب تو دے
نہیں نہیں میں وفا سے کنارہ کش تو نہیں
وہ دے رہا ہے مجھے ہجر کا عذاب تو دے
یہ خامشی تو قیامت کی جان لیوا ہے
وہ دل دکھائے مگر بات کا جواب تو دے
ہر ایک واقعہ تاریخ دار لکھ جاؤں
گئے دنوں کی مرے ہاتھ وہ کتاب تو دے
یہ دیکھ کس گل تر پر نگاہ ٹھہری ہے
نہ دے وہ پھول مجھے داد انتخاب تو دے
گناہ گار سہی پھر بھی میرے حصے کا
تری طرف جو نکلتا ہے وہ ثواب تو دے

غزل
یہ سیل اشک مجھے گفتگو کی تاب تو دے
صبیحہ صبا