EN हिंदी
یہ سہل ہی سہی سکے اچھال کر رکھنا | شیح شیری
ye sahal hi sahi sikke uchhaal kar rakhna

غزل

یہ سہل ہی سہی سکے اچھال کر رکھنا

نور منیری

;

یہ سہل ہی سہی سکے اچھال کر رکھنا
مگر یہ دل ہے اسے بھی سنبھال کر رکھنا

نظر سے لاکھ ہوں اوجھل سراغ منزل کے
جنوں کا کام ہے صحرا کھنگال کر رکھنا

ہے انقلاب کے شعلوں کی گرمیاں اس میں
متاع لوح و قلم کو سنبھال کر رکھنا

نیا خیال نئی روشنی نئی راہیں
سفر نیا ہے قدم دیکھ بھال کر رکھنا

جناب نورؔ غزل کا یہی تقاضہ ہے
نئے خیال کو قالب میں ڈھال کر رکھنا