EN हिंदी
یہ صدمہ اس کو پاگل کر گیا تھا | شیح شیری
ye sadma usko pagal kar gaya tha

غزل

یہ صدمہ اس کو پاگل کر گیا تھا

سعید احمد اختر

;

یہ صدمہ اس کو پاگل کر گیا تھا
وہ اپنے آئنے سے ڈر گیا تھا

کوئی بھی سر نہیں تھا اس کے قابل
عبث اس شہر میں پتھر گیا تھا

جہالت کے حوالے پڑھتے پڑھتے
کتابوں سے مرا جی بھر گیا تھا

پلاتا کون اس پیاسے کو پانی
کوئی مسجد کوئی مندر گیا تھا

وہ کس مٹی کا تھا نفرت کے گھر میں
وہ اوڑھے پیار کی چادر گیا تھا

مرا احساس تو تیرے کرم سے
مرے مرنے سے پہلے مر گیا تھا

نہ نکلا پھر وہ ساری عمر گھر سے
ذرا سی دیر کو باہر گیا تھا

تو پھر لوٹا ہے کس نے قافلے کو
ادھر تو صرف اک رہبر گیا تھا

وہاں پھر پیر کب رکھا کسی نے
جہاں رستے میں میرا سر گیا تھا