یہ سچ نہیں کہ تمازت سے ڈر گئی ہے ندی
سکون دل کے لیے اپنے گھر گئی ہے ندی
ابھی تو پہنے ہوئی تھی لباس خاموشی
یہ کیا ہوا کہ اچانک بپھر گئی ہے ندی
ہمیں یہ ڈر ہے کہ پھر سے بپھر نہ جائے کہیں
قدم بڑھاؤ کہ اس وقت اتر گئی ہے ندی
وہ شخص تڑپا نہ چلایا اور مر بھی گیا
پتا چلا نہیں کب وار کر گئی ہے ندی
نہیں ملی جو رفاقت کسی سمندر کی
تو ریزہ ریزہ سی ہو کر بکھر گئی ہے ندی
نہ جانے آج تو اتنی ملول سی کیوں ہے
یہ کیا ہوا کہ تری آنکھ بھر گئی ہے ندی
سنا سنا کے غموں کی کہانیاں فردوسؔ
مجھے تو اور بھی غمگین کر گئی ہے ندی
غزل
یہ سچ نہیں کہ تمازت سے ڈر گئی ہے ندی
فردوس گیاوی