یہ سچ ہے دنیا بہت حسیں ہے
مگر مری عمر کی نہیں ہے
تری جگہ کون لے سکے گا
تو میرا پہلا تماش بیں ہے
مجھی پہ ہے سوچنے کا ذمہ
اسے تو ہر بات کا یقیں ہے
بجھا ہی رہتا ہے دل ہمارا
نہ جانے کس دھوپ کا نگیں ہے
ہے مجھ پہ الزام خود ستائش
اور اس میں کچھ جھوٹ بھی نہیں ہے
نہ رکھ بہت ہوش کی توقع
کہ یہ مرا عشق اولیں ہے
عجب ہے انداز بندگی بھی
کہ ہم کہیں اور صف کہیں ہے
غزل
یہ سچ ہے دنیا بہت حسیں ہے
شارق کیفی