یہ سچ ہے بہم اس کی محبت بھی نہیں تھی
اور ترک مراسم ہوں یہ ہمت بھی نہیں تھی
اس شخص کی الفت میں گرفتار یہ دل تھا
جس شخص کو چھونے کی اجازت بھی نہیں تھی
کچھ زخم تمنا کو نہ تھا شوق مداوا
کچھ اس کو مسیحائی کی عادت بھی نہیں تھی
تھے راہ محبت میں پڑاؤ کئی لازم
کیا کیجیے رکنا مری فطرت بھی نہیں تھی
جو خواب شکستہ کو عطا حوصلہ کرتی
حاصل وہ جنوں خیز رفاقت بھی نہیں تھی
ہر چند کہ افسوس بچھڑنے کا ہمیں تھا
لیکن ملیں ہم پھر کبھی حسرت بھی نہیں تھی
وحشت میں چراغاں میں ترے قرب سے کرتا
افسوس میسر یہ سہولت بھی نہیں تھی
کچھ راستے دشوار منازل کے تھے اور کچھ
جذبوں میں خیالؔ اپنے صداقت بھی نہیں تھی

غزل
یہ سچ ہے بہم اس کی محبت بھی نہیں تھی
رفیق خیال