EN हिंदी
یہ سب کہنے کی باتیں ہیں ہم ان کو چھوڑ بیٹھے ہیں (ردیف .. ے) | شیح شیری
ye sab kahne ki baaten hain hum un ko chhoD baiThe hain

غزل

یہ سب کہنے کی باتیں ہیں ہم ان کو چھوڑ بیٹھے ہیں (ردیف .. ے)

ظہیرؔ دہلوی

;

یہ سب کہنے کی باتیں ہیں ہم ان کو چھوڑ بیٹھے ہیں
جب آنکھیں چار ہوتی ہیں مروت آ ہی جاتی ہے

وہ اپنی شوخیوں سے کوئی اب تک باز آتے ہیں
ہمیشہ کچھ نہ کچھ دل میں شرارت آ ہی جاتی ہے

نہ الجھو طعنۂ دشمن پہ ایسا ہو ہی جاتا ہے
جہاں اخلاص ہوتا ہے شکایت آ ہی جاتی ہے

لیا جب نام الفت کا بدل جاتی ہے سیرت بھی
نگاہ شرم آگیں میں شرارت آ ہی جاتی ہے

کبھی چتون سے ان بن ہے کبھی سودا ہے گیسو کا
نصیبوں کی یہ شامت ہے کہ شامت آ ہی جاتی ہے

ہمیشہ عہد ہوتے ہیں نہیں ملنے کے اب ان سے
وہ جب آ کر لپٹتے ہیں محبت آ ہی جاتی ہے

کہیں آرام سے دو دن فلک رہنے نہیں دیتا
ہمیشہ اک نہ اک سر پر مصیبت آ ہی جاتی ہے

حساب دوستاں در دل تقاضا ہے محبت کا
مثل مشہور ہے الفت سے الفت آ ہی جاتی ہے