یہ سب کہنے کی باتیں ہیں ہم ان کو چھوڑ بیٹھے ہیں
جب آنکھیں چار ہوتی ہیں مروت آ ہی جاتی ہے
وہ اپنی شوخیوں سے کوئی اب تک باز آتے ہیں
ہمیشہ کچھ نہ کچھ دل میں شرارت آ ہی جاتی ہے
نہ الجھو طعنۂ دشمن پہ ایسا ہو ہی جاتا ہے
جہاں اخلاص ہوتا ہے شکایت آ ہی جاتی ہے
لیا جب نام الفت کا بدل جاتی ہے سیرت بھی
نگاہ شرم آگیں میں شرارت آ ہی جاتی ہے
کبھی چتون سے ان بن ہے کبھی سودا ہے گیسو کا
نصیبوں کی یہ شامت ہے کہ شامت آ ہی جاتی ہے
ہمیشہ عہد ہوتے ہیں نہیں ملنے کے اب ان سے
وہ جب آ کر لپٹتے ہیں محبت آ ہی جاتی ہے
کہیں آرام سے دو دن فلک رہنے نہیں دیتا
ہمیشہ اک نہ اک سر پر مصیبت آ ہی جاتی ہے
حساب دوستاں در دل تقاضا ہے محبت کا
مثل مشہور ہے الفت سے الفت آ ہی جاتی ہے
غزل
یہ سب کہنے کی باتیں ہیں ہم ان کو چھوڑ بیٹھے ہیں (ردیف .. ے)
ظہیرؔ دہلوی