یہ سانحہ بھی ہو گیا ہے رستے میں
جو رہنما تھا وہی کھو گیا ہے رستے میں
کسی بھی آبلہ پا کو نہ مل سکی تسکین
عجیب خار کوئی بو گیا ہے رستے میں
عتاب جاں ہوئی گرد سفر کسی کے لئے
کسی کو ابر کرم دھو گیا ہے رستے میں
حدی کی لے کرو مدھم اے قافلے والو
تھکن سے چور کوئی سو گیا ہے رستے میں
مسافران وفا کی کوئی خبر نہ ملی
نہ جانے کون کدھر کو گیا ہے رستے میں
رہے گا ساتھ کہاں تک یہ دیکھنا ہے مجھے
وہ ہم سخن تو مرا ہو گیا ہے رستے میں
غزل
یہ سانحہ بھی ہو گیا ہے رستے میں
عبد الوہاب سخن