یہ رہ گزر تو کسی رہ گزر کا دھوکا ہے
کہ عمر بھر کا سفر بھی سفر کا دھوکا ہے
خبر کی روشنی اب روشنی نہیں کرتی
سو ہو نہ ہو یہ خبر بھی خبر کا دھوکا ہے
یہاں تو حد نظر تک ہے ایک ویرانی
مرے گماں یہ تجھے کس نگر کا دھوکا ہے
دکھائی بھی تو کہیں دے وہ دھوپ آنے پر
شجر وہ ہے کہ ہمیں کو شجر کا دھوکا ہے
اسی لئے تو یہ صحرا عزیز ہے کہ یہاں
نہ شور شہر بلا ہے نہ گھر کا دھوکا ہے
بدلتی جاتی ہے دنیا کچھ اس طرح خالدؔ
کہ جو نظر میں ہے سمجھو نظر کا دھوکا ہے

غزل
یہ رہ گزر تو کسی رہ گزر کا دھوکا ہے
خالد محمود ذکی