یہ رات کتنی بھیانک ہے بام و در کے لئے
کہاں سے لاؤں سراج منیر گھر کے لئے
طلب کی راہ سلامت مقام شوق بہت
تکلفات ضروری نہیں سفر کے لئے
جمال یار سزاوار جہت خاص نہیں
عجیب مرحلہ در پیش ہے نظر کے لئے
غریب شہر تمنا اسیر دام فراق
تڑپ رہا ہے سر جادہ ہم سفر کے لئے
بصیرت لب و لہجہ نہ زندگی کا شعور
قرار بھی ہے ضروری دل و نظر کے لئے
نشاط کا رخ روشن دکھا گئی شب غم
دعا کو ہاتھ اٹھایا تھا میں سحر کے لئے
فغاں کہ جس نے زمانے کو روشنی بخشی
چراغ ڈھونڈ رہا ہے خود اپنے گھر کے لئے
حیات دفتر تخلیق بھی ہے اے شاطرؔ
حیات ایک معمہ بھی ہے بشر کے لئے
غزل
یہ رات کتنی بھیانک ہے بام و در کے لئے
شاطرحکیمی