یہ رات کاش اسی دل کشی سے ڈھلتی رہے
افق کے پاس پہاڑوں میں آگ جلتی رہے
دراز تر ہو خیالوں کی بستیوں کا سفر
مری تلاش سدا زاویے بدلتی رہے
کوئی چراغ نہ میرے حریم غم میں جلے
خود اپنی آنچ میں یہ تیرگی پگھلتی رہے
شکستہ ہو کے بھی نومید ہو نہ دل تیرا
بجھے چراغ میں بھی روشنی مچلتی رہے
سفینے ڈوب گئے کتنے دل کے ساگر میں
خدا کرے تری یادوں کی ناؤ چلتی رہے
غزل
یہ رات کاش اسی دل کشی سے ڈھلتی رہے
حسن اختر جلیل