یہ قصہ وہ نہیں تم جس کو قصہ خواں سے سنو
مرے فسانۂ غم کو مری زباں سے سنو
سناؤ درد دل اپنا تو دم بہ دم فریاد
مثال نے مری ہر ایک استخواں سے سنو
کرو ہزار ستم لے کے ذکر کیا یک یار
شکایت اپنی تم اس اپنے نیم جاں سے سنو
خدا کے واسطے اے ہمدمو نہ بولو تم
پیام لایا ہے کیا نامہ بر وہاں سے سنو
تمہارے عشق نے رسوا کیا جہاں میں ہمیں
ہمارا ذکر نہ تم کیونکہ اک جہاں سے سنو
سنو تم اپنی جو تیغ نگاہ کے اوصاف
جو تم کو سننا ہو اس شوخ دلستاں سے سنو
ظفرؔ وہ بوسہ تو کیا دے گا پر کوئی دشنام
جو تم کو سننا ہو اس شوخ دلستاں سے سنو
غزل
یہ قصہ وہ نہیں تم جس کو قصہ خواں سے سنو
بہادر شاہ ظفر