یہ قرض کج کلہی کب تلک ادا ہوگا
تباہ ہو تو گئے ہیں اب اور کیا ہوگا
یہاں تک آئی ہے بپھرے ہوئے لہو کی صدا
ہمارے شہر میں کیا کچھ نہیں ہوا ہوگا
غبار کوچۂ وعدہ بکھرتا جاتا ہے
اب آگے اپنے بکھرنے کا سلسلہ ہوگا
صدا لگائی تو پرسان حال کوئی نہ تھا
گمان تھا کہ ہر اک شخص ہم نوا ہوگا
کبھی کبھی تو وہ آنکھیں بھی سوچتی ہوں گی
بچھڑ کے رنگ سے خوابوں کا حال کیا ہوگا
ہوا ہے یوں بھی کہ اک عمر اپنے گھر نہ گئے
یہ جانتے تھے کوئی راہ دیکھتا ہوگا
ابھی تو دھند میں لپٹے ہوئے ہیں سب منظر
تم آؤ گے تو یہ موسم بدل چکا ہوگا
غزل
یہ قرض کج کلہی کب تلک ادا ہوگا
افتخار عارف