EN हिंदी
یہ نکہتوں کی نرم روی یہ ہوا یہ رات | شیح شیری
ye nikhaton ki narm-rawi ye hawa ye raat

غزل

یہ نکہتوں کی نرم روی یہ ہوا یہ رات

فراق گورکھپوری

;

یہ نکہتوں کی نرم روی یہ ہوا یہ رات
یاد آ رہے ہیں عشق کو ٹوٹے تعلقات

مایوسیوں کی گود میں دم توڑتا ہے عشق
اب بھی کوئی بنا لے تو بگڑی نہیں ہے بات

کچھ اور بھی تو ہو ان اشارات کے سوا
یہ سب تو اے نگاہ کرم بات بات بات

اک عمر کٹ گئی ہے ترے انتظار میں
ایسے بھی ہیں کہ کٹ نہ سکی جن سے ایک رات

ہم اہل انتظار کے آہٹ پہ کان تھے
ٹھنڈی ہوا تھی غم تھا ترا ڈھل چلی تھی رات

یوں تو بچی بچی سی اٹھی وہ نگاہ ناز
دنیائے دل میں ہو ہی گئی کوئی واردات

جن کا سراغ پا نہ سکی غم کی روح بھی
ناداں ہوئے ہیں عشق میں ایسے بھی سانحات

ہر سعی و ہر عمل میں محبت کا ہاتھ ہے
تعمیر زندگی کے سمجھ کچھ محرکات

اس جا تری نگاہ مجھے لے گئی جہاں
لیتی ہو جیسے سانس یہ بے جان کائنات

کیا نیند آئے اس کو جسے جاگنا نہ آئے
جو دن کو دن کرے وہ کرے رات کو بھی رات

دریا کے مد و جزر بھی پانی کے کھیل ہیں
ہستی ہی کے کرشمے ہیں کیا موت کیا حیات

اہل رضا میں شان بغاوت بھی ہو ذرا
اتنی بھی زندگی نہ ہو پابند رسمیات

ہم اہل غم نے رنگ زمانہ بدل دیا
کوشش تو کی سبھی نے مگر بن پڑے کی بات

پیدا کرے زمین نئی آسماں نیا
اتنا تو لے کوئی اثر دور کائنات

شاعر ہوں گہری نیند میں ہیں جو حقیقتیں
چونکا رہے ہیں ان کو بھی میرے توہمات

مجھ کو تو غم نے فرصت غم بھی نہ دی فراقؔ
دے فرصت حیات نہ جیسے غم حیات