یہ نیم باز تری انکھڑیوں کے میخانے
نظر ملے تو چھلک جائیں دل کے پیمانے
کہیں کلی نے تبسم کا راز سمجھا ہے
جو خود چمن ہے وہ اپنی بہار کیا جانے
عجب نہیں جو محبت مجھے سمجھ نہ سکے
وہ اجنبی ہوں جسے زیست بھی نہ پہچانے
جو ہوش میں تھا تو کوئی نہ مے بجام آیا
بہک گیا ہوں تو دنیا چلی ہے سمجھانے
فریب مشرق و مغرب ہیں رہروان جدید
یہ بد نصیب نہ عاقل ہوئے نہ دیوانے
وہ زندہ ہے جو بہے موج وقت کی رو میں
وہ زندہ تر ہے جو طوفاں میں ٹھیرنا جانے
میں اپنی بزم سے اتنا ہی دور ہوں کہ نشورؔ
مری نواؤں سے کچھ آشنا ہیں بیگانے
غزل
یہ نیم باز تری انکھڑیوں کے میخانے
نشور واحدی