EN हिंदी
یہ نرم نرم ہوا جھلملا رہے ہیں چراغ | شیح شیری
ye narm narm hawa jhilmila rahe hain charagh

غزل

یہ نرم نرم ہوا جھلملا رہے ہیں چراغ

فراق گورکھپوری

;

یہ نرم نرم ہوا جھلملا رہے ہیں چراغ
ترے خیال کی خوشبو سے بس رہے ہیں دماغ

دلوں کو تیرے تبسم کی یاد یوں آئی
کہ جگمگا اٹھیں جس طرح مندروں میں چراغ

جھلکتی ہے کھنچی شمشیر میں نئی دنیا
حیات و موت کے ملتے نہیں ہیں آج دماغ

حریف سینۂ مجروح و آتش غم عشق
نہ گل کی چاک گریبانیاں نہ لالے کے داغ

وہ جن کے حال میں لو دے اٹھے غم فردا
وہی ہیں انجمن زندگی کے چشم و چراغ

تمام شعلۂ گل ہے تمام موج بہار
کہ تا حد نگہ شوق لہلہاتے ہیں باغ

نئی زمین نیا آسماں نئی دنیا
سنا تو ہے کہ محبت کو ان دنوں ہے فراغ

جو تہمتیں نہ اٹھیں اک جہاں سے ان کے سمیت
گناہ گار محبت نکل گئے بے داغ

جو چھپ کے تاروں کی آنکھوں سے پاؤں دھرتا ہے
اسی کے نقش کف پا سے جل اٹھے ہیں چراغ

جہان راز ہوئی جا رہی ہے آنکھ تری
کچھ اس طرح وہ دلوں کا لگا رہی ہے سراغ

زمانہ کود پڑا آگ میں یہی کہہ کر
کہ خون چاٹ کے ہو جائے گی یہ آگ بھی باغ

نگاہیں مطلع نو پر ہیں ایک عالم کی
کہ مل رہا ہے کسی پھوٹتی کرن کا سراغ

دلوں میں داغ محبت کا اب یہ عالم ہے
کہ جیسے نیند میں ڈوبے ہوں پچھلی رات چراغ

فراقؔ بزم چراغاں ہے محفل رنداں
سجے ہیں پگھلی ہوئی آگ سے چھلکتے ایاغ