یہ ملاقات ملاقات نہیں ہوتی ہے
بات ہوتی ہے مگر بات نہیں ہوتی ہے
باریابی کا برا ہو کہ اب ان کے در پر
اگلے وقتوں کی مدارات نہیں ہوتی ہے
غم تو گھنگھور گھٹاؤں کی طرح اٹھتے ہیں
ضبط کا دشت ہے برسات نہیں ہوتی ہے
یہ مرا تجربہ ہے حسن کوئی چال چلے
بازیٔ عشق کبھی مات نہیں ہوتی ہے
وصل ہے نام ہم آہنگی و یک رنگی کا
وصل میں کوئی بری بات نہیں ہوتی ہے
ہجر تنہائی ہے سورج ہے سوا نیزے پر
دن ہی رہتا ہے یہاں رات نہیں ہوتی ہے
ضبط گریہ کبھی کرتا ہوں تو فرماتے ہیں
آج کیا بات ہے برسات نہیں ہوتی ہے
مجھے اللہ کی قسم شعر میں تحسین بتاں
میں جو کرتا ہوں میری ذات نہیں ہوتی ہے
فکر تخلیق سخن مسند راحت پہ حفیظ
باعث کشف و کرامات نہیں ہوتی ہے
غزل
یہ ملاقات ملاقات نہیں ہوتی ہے
حفیظ جالندھری