یہ مرحلے بھی محبت کے باب میں آئے
خلوص چاہا تو پتھر جواب میں آئے
خوشا وہ شوق کہ در در لیے پھرا مجھ کو
زہ نصیب کہ تم انتخاب میں آئے
ہزار ضبط کروں لاکھ دل کو بہلاؤں
مگر وہ شکل جو ہر روز خواب میں آئے
میں کیا کہوں کہ ترا ذکر غیر سے سن کر
جو وسوسے دل خانہ خراب میں آئے
ہے شہریار کی قربت سے فاصلہ بہتر
رہے جو قرب میں اکثر عتاب میں آئے
وہیں قبیلۂ مردہ ضمیر لکھ دینا
ہمارا ذکر جہاں بھی کتاب میں آئے
ریا کے دور میں سچ بول تو رہے ہو مگر
یہ وصف ہی نہ کہیں احتساب میں آئے
میں اپنے دیس کی مٹی سے پیار کرتا ہوں
یہ جرم بھی مری فرد حساب میں آئے
غزل
یہ مرحلے بھی محبت کے باب میں آئے
مرتضیٰ برلاس