یہ محشر سوز و ساز کیا ہے
آخر مرا امتیاز کیا ہے
دل محو صدائے درد کیوں ہے
یہ عرض ہنر گداز کیا ہے
مفہوم نوائے راز کیا تھا
آواز شکست ساز کیا ہے
ڈرتا ہوں کہ اپنا غم نہ ہو جائے
اپنے سے یہ احتراز کیا ہے
پا کر بھی تجھے میں سوچتا ہوں
مٹنے کا مرے جواز کیا ہے
اب تو جو ملا تو میں نہیں ہوں
مجھ سے ترا امتیاز کیا ہے
کس کس کو بھلا چکا ہوں اے غم
یہ بے دلیٔ نیاز کیا ہے
اکثر تو ترا برا بھی چاہا
کیا جانئے خود پہ ناز کیا ہے

غزل
یہ محشر سوز و ساز کیا ہے
شہاب جعفری