EN हिंदी
یہ مہر و مہ بے چراغ ایسے کہ راکھ بن کر بکھر رہے ہیں | شیح شیری
ye mahr o mah be-charagh aaise ki rakh ban kar bikhar rahe hain

غزل

یہ مہر و مہ بے چراغ ایسے کہ راکھ بن کر بکھر رہے ہیں

صابر وسیم

;

یہ مہر و مہ بے چراغ ایسے کہ راکھ بن کر بکھر رہے ہیں
ہم اپنی جاں کا دیا بجھائے کسی گلی سے گزر رہے ہیں

یہ دکھ جو مطلوب کا ملا ہے فشار اپنی ہی ذات کا ہے
کہ ہم خود اپنی تلاش میں ہیں اور اپنے صدموں سے مر رہے ہیں

وجود کیوں ہے شہود کیوں ہے ثبات کیا ہے نجات کیا ہے
انہی سوالوں کی آگ لے کر ہم اپنا اثبات کر رہے ہیں

اے وقت کے بے قیاس دھارے کدھر ہیں وہ ہم نسب ہمارے
جو ایک زندہ خبر کی خاطر خود آپ سے بے خبر رہے ہیں

اذیتوں کا نزول موقوف خاک اڑانے ہی پر نہیں ہے
عذاب ان کو بھی تو ملے ہیں جو لوگ اپنے ہی گھر رہے ہیں

نظر میں اتنی شباہتیں ہیں کہ اس کی پہچان کھو گئی ہے
سماعتوں میں ہے شور اتنا کہ ہر صدا سے مکر رہے ہیں

ہمارے اندر کا خوف صابرؔ شکست دینے لگا ہے ہم کو
لہو کی رت اب گزر گئی ہے دلوں میں صحرا اتر رہے ہیں