یہ مانتا ہوں کہ سو بار جھوٹ کہتا ہے
مگر یہ سچ ہے وہ تم سے ہی پیار کرتا ہے
ارے وہ ہوگا منافق تمہارا یار نہیں
ہر ایک بات پہ جو ہاں میں ہاں ملاتا ہے
کہوں میں اچھا برا یا کروں کوئی بکواس
مرا خدا ہی تو ہر بات میری سنتا ہے
معاشرے کا بڑا ایک المیہ یہ ہے
یہاں پہ جرم زیادہ فروغ پاتا ہے
تمہیں زمیں کا حوالہ تو راس آیا نہیں
وہ آسمان بھلا کس نے جا کے دیکھا ہے
میں اس کے ہونے پہ کامل یقین رکھتا ہوں
مرے یقین پہ وہ بھی یقین رکھتا ہے
اے میری حور ترا انتظار ہے اب بھی
ترا وقارؔ ابھی تیری راہ تکتا ہے
غزل
یہ مانتا ہوں کہ سو بار جھوٹ کہتا ہے
وقار خان