EN हिंदी
یہ لو کیسی ہے جو اک سانس بھی مدھم نہیں ہوتی | شیح شیری
ye lau kaisi hai jo ek sans bhi maddham nahin hoti

غزل

یہ لو کیسی ہے جو اک سانس بھی مدھم نہیں ہوتی

محمد عباس سفیر

;

یہ لو کیسی ہے جو اک سانس بھی مدھم نہیں ہوتی
بھلانے پر بھی ظالم یاد اس کی کم نہیں ہوتی

یہ مطلب آشنا دنیا یہ ظالم بے وفا دنیا
شریک عیش کر لیجے شریک غم نہیں ہوتی

عدم کے جانے والے قافلے دن رات چلتے ہیں
مگر اس انجمن کی دل کشی کچھ کم نہیں ہوتی

نہ پوچھ اے ہم نشیں روداد ہائے شام غم ہم سے
قیامت کی سحر ہوتی ہے شام غم نہیں ہوتی

بھلایا ہے مجھے تو نے تری برہم مزاجی نے
مگر بے درد تیری یاد پھر بھی کم نہیں ہوتی

نہیں واقف تو اے دل آتش سوز محبت سے
یہ دولت جس قدر آتی ہے گھر میں کم نہیں ہوتی

سفیرؔ اب تک تو روداد محبت خام ہے تیری
ابھی تو آنکھ بھی فرط الم سے نم نہیں ہوتی