یہ کیا ضرور ہمیں کو وہ آزمائے گا
ہر آنے والا مقدر بھی ساتھ لائے گا
کسے خبر ہے کہ اس تیرہ خاکداں کے لئے
ہے ایک دل ہی تو روشن سو ڈوب جائے گا
کھلے دریچوں سے یوں جھانکتی ہے مایوسی
کہ جیسے اب کوئی جھونکا ادھر نہ آئے گا
اداس رات کی سرگوشیوں کے بعد اگر
سحر جو آئی تو کس کو یقین آئے گا
میں جس کے ماضی کا اک لمحۂ گریزاں ہوں
یہ دیکھنا ہے وہ کیسے مجھے بھلائے گا
ہزار خواب ہیں ان خود فریب آنکھوں میں
بچھڑ کے بھی وہ یہاں سے کہیں نہ جائے گا
یہ دن بھی آ گئے اب اپنے دل پہ بیتی ہوئی
میں خود کہوں گا مجھی کو یقیں نہ آئے گا

غزل
یہ کیا ضرور ہمیں کو وہ آزمائے گا
مشفق خواجہ