یہ کیا تمہارے جی میں سمائی تمام رات
گالوں پہ رکھ کے سوئے کلائی تمام رات
اختر شماریوں میں گزر ہی گیا جنون
مانا کے مجھ کو نیند نہ آئی تمام
دیکھے جو چشم زار کہ سیلاب ہائے خوں
یاد آئے دست و پائے حنائی تمام رات
بستر کی ایک ایک شکن نوک خار تھی
کروٹ بدلتے نیند نہ آئی تمام رات
تسبیح لے کے ہاتھ میں زاہد نے صبح کی
یاں تاجؔ ہم نے عید منائی تمام رات
غزل
یہ کیا تمہارے جی میں سمائی تمام رات
ریاست علی تاج